حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شیراز ایران سے، کورونا کے دنوں میں طلباء کی ان تمام جہادی اور رضا کارانہ سرگرمیوں میں، جن میں عوامی گزرگاہوں اور سڑکوں پر جراثیم کش سپرے، راشن پیکیجوں کی تیاری اور تقسیم ، ماسک بنانا اور تقسیم وغیرہ شامل ہیں ، ان کاموں میں سے سب زیادہ کورونا سے مرنے والوں کے غسل و کفن اور دفن کا کام مشکل ہے۔
حوزہ نیوز ایجنسی کے صحافی:
چنانچہ میں اس سلسلے میں ایک سروے کرنے "دارالرحمہ شیراز ایران" گیا تاکہ وہاں کورونا سے مرنے والوں کو غسل دینے والے ایک طالب علم سے گفتگو کر سکوں اور ایک رپورٹ تیار کروں۔ میں اس عظیم انسان کو تلاش کر رہا تھا جب میں نے ایک نوجوان کو بڑے جوش و جذبے سے کام کرتے دیکھا تو آگے بڑھ کر کہا:
السلام علیکم، کیا آپ اپنا تعارف کروائیں گے ؟
سلام علیکم! بسم اللہ الرحمن الرحیم
میرا نام امیر حسین عباسی ، حوزہ علمیہ کا طالب علم اور میری عمر 20سال ہے۔
میں ،کورونا وائرس سے مرنے والوں کے لواحقین کی خدمت میں مصروف ہوں۔
دارالرحمہ میں آپ کی سرگرمیوں اور جاں بحق افراد کے غسل و کفن اور دفن کے بارے میں وضاحت کریں گے؟
میں فروردین کے پہلے دن سے جب اسپتال میں کورونا وائرس سے مرنے والوں کے بارے میں تیمم اور کفن کی بحث کا آغاز ہوا ،اس وقت سے ہی میت کے غسل،کفن اور دفن میں مشغول ہوں، در حقیقت میں تقریباً 9 ماہ سے یہ کام انجام دے رہا ہوں۔
شروع میں ہی میں نے یہ سوچا کہ اگر میں ڈاکٹر یا نرس ہوتا تو مجھے اپنے اخلاقی فرض کے مطابق اسپتال میں خدمات انجام دینی چاہئیں تھیں۔ اب میں ایک طالب علم اور امام الزمان علیہ السلام کا سپاہی بن گیا ہوں اس لئے میرا فرض یہ ہے کہ میں شریعت الٰہی کے قوانین کو پامالی سے بچاؤں۔
بہر حال شاید کسی بھی معاملے میں سب سے پہلے جن کے ذمے شریعت کے واجب احکام ہیں وہ دینی طلباء اور علماء ہیں جنہوں نے رضا کارانہ طور پر اس راہ کو اپنایا۔
آپ کس طرح یہ سرگرمیاں سرانجام دیتے ہیں؟
ہم "شہید مسرور کے رضا کار گروہ" سے تعلق رکھنے والے تقریباً 50 افراد ہیں ، خستگی اور تھکاوٹ کے باعث کورونا وائرس سے انتقال پانے والوں کے غسل ، کفن اور دفن کے کام کو شفٹوں میں انجام دیتے ہیں،ہم تقریبا 9 ماہ سے یہ ذمہ داری انجام دے رہے ہیں۔
دارالرحمہ اور یہاں میت کو غسل دئیے جانے والے غسل خانے کا ماحول دیگر مقامات سے بالکل مختلف ہے ان فرقوں میں سے ایک یہ ہے کہ یہاں کام کرنے والے رضا کارانہ طور پر اخلاص کے ساتھ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر اور بغیر کسی توقع اور حق زحمت کے کام کر رہے ہیں۔
آپ کس طرز تفکر کی بنیاد پر اس کام میں مصروف ہوگئے تھے؟
اسپتال میں کورونا سے مرنے والوں کو غسل کے بدلے تیمم دیۓ جانے سے پہلے میں نے اپنے آپ کو ہر چیز یہاں تک کہ موت کیلئے بھی تیار کیا تھا میں نے واقعتاً اپنا سارا حساب و کتاب مکمل کرلیا ہے تاکہ مجھ پر کسی قسم کا کوئی قرضہ نہ ہو۔
اس بات کو جانتے ہوئے بھی کہ کورونا وائرس میں مبتلا ہوں گے لیکن پھر بھی ہمارے دوستوں نے خلوص سے کام کرنا شروع کیا اور فی سبیل للہ خدمت خلق کے سوا اور کوئی مقصد نہیں تھا۔
دارالرحمہ میں موجود خدمت خلق میں مشغول علماء اور طلباء کے بارے میں عوام کا نظریہ کیا ہے؟
لواحقین علماء اور طلباء کو اس طرح کام کرتے دیکھ کر تعجب اور حیرت زدہ ہو کر پوچھتے ہیں کہ غسل و کفن دینے کے کتنے پیسے لیتے ہیں! جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ علماء اور طلباء رضا کارانہ طور پر خدمت انجام دے رہے ہیں تو تعجب کرتے ہیں۔
کچھ خاندان لاشوں کی تکفین اور تدفین کے سلسلے میں پریشان اور فکرمند ہوتے ہیں لیکن علمائے کرام شروع سے آخر تک کورونا سے مرنے والوں کا ہر کام حتی کہ مستحب اعمال کو بھی بجا لاتے ہیں تاکہ لواحقین مطمئن رہیں۔
آپ نے اب تک کتنی میتوں کو غسل دیا ہے؟
اب تک ، میں 700 سے زیادہ کورونا سے مرنے والوں کو غسل دے چکا ہوں۔
انٹرویو حجت کھیاری
شیراز ایران
حوزہ نیوز ایجنسی